Sunday, August 14, 2022

آزادی کی قیمت ہم کیا جانیں


 باجے بجاتی ناچتی گاتی ہّلڑ باز قوم نما ہجوم کے لیے !


""15 اگست 1947 کو جب بھارت پر آزادی کی دیوی کا نزول ہوا تو امرتسر شہر نے اس روزِ سعید کو عجیب طور پر منایا۔
جان کونیئل اپنی کتاب میں لکھتا ہے کے اس روز سِکھوں کے ایک ہجوم نے مسلمان عورتوں کو برہنہ کر کے اُن کا جلوس نکالا، یہ جلوس شہر کے گَلی کوچوں میں گھومتا رہا، پھر سارے جلوس کی عصمت دری کی گئی، اسکے بعد کچھ عورتوں کو کرپانوں سے ذبحہ کر دیا گیا اور باقی کو ذندہ جلا دیا گیا، واہ گرو کا خالصہ واہ گرو کی فتح !!
.
قدرت اللہ شہاب کی کتاب "شہاب نامہ" سے اقتباس"""

اوپر اقتباس قدرت اللہ شہاب  کی کتاب شہاب نامہ سے لیا گیا ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہر پاکستانی کو زندگی میں ایک بار یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے,
آج پاکستان کی نوجوان نسل یہ کہتی پھرتی ہے کہ پاکستان نے دیا کیا ہے انہیں، کوئی ان سے پوچھے تم نے پاکستان کو کیا دیا ہے ؟ تم لوگوں کو پاکستان پلیٹ میں رکھا ہوا مل گیا ہے اس لیے قدر نہیں اور تاریخ کا مطالعہ کرنا تو ویسے ہی آجکل کی نوجوان نسل اپنی توہین سمجھتی ہے، 
یہ نسل نہیں جانتی کے لاکھوں مسلمانوں نے اپنے سر کٹوا کر اپنے خون سے اس ملک کی بنیادیں کھڑی کی ت
بھارتی فلموں، ڈراموں کے دیوانے یہ آجکل کے الباکستانی نہیں جانتے کہ ہزاوں مسلمان مَردوں کو باندھ کر اُنکے سامنے ہندوؤں اور سکھوں نے اُنکی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزت و آبرو پامال کر کے اُنہیں کرپانوں سے ذبح کر دیا تھا،
یہ  نہیں جانتے کہ آج بھی ہندوستان میں ایسے ہزاروں کنویں کہیں دفن ہوں گے جن میں اُس وقت مسلمان عورتوں نے پاکستان کی خاطر اپنی عزت و آبرو کو بچانے کے لیے چھلانگیں لگا دی تھیں،
آج بھی ہندوستان میں وہ درخت گواہ ہوں گے جہاں مسلمان بچوں کے جسموں میں میخیں گاڑھ کر ذندہ لٹکا دیا گیا تھا،
یہ لوگ نہیں جانتے کے جب اگست 1947 میں ہندوستان سے ریل گاڑیاں پاکستان پہنچتی تھیں تو اُن میں مسلمانوں کی لاشوں کو گدھ اور کُتے نوچ رہے ہوتے تھے،
یہ جو لوگ ہر وقت اپنے مائی باپ لیڈی ماؤنٹ بیٹن کے عاشق مہاتما گاندھی کے فرمودات سناتے تھکتے نہیں کوئی ان کو جا کر بتائے کہ اُس عیار لومڑی نے پس پردہ مسلمانوں پر کتنے ظلم ڈھائے تھے،
کوئی جا کر ہندوستان دوستی کے بخار میں مبتلا فکری بد دیانت دانشوروں کو بتائے کہ تقسیم کے فارمولے میں برطانوی راج کی انتہائی بددیانتی اور ناانصافی کے باوجود قائداعظم نے کیوں چار صوبوں پر مشتمل پاکستان قبول کر لیا تھا،
قائد جانتے تھے کہ ہندو قوم نہ کبھی مخلص تھی مسلمانوں سے اور نہ ہو سکتی ہے، چھوت چھات کی گندی گھٹری میں لپٹی ہندو قوم احساسِ کمتری کی ماری ہوئی ہے،

مسلمانوں نے اِن پر ہزار سال حکومت کی یہ بات ہندو نہ کبھی بھلا سکے نہ بھُلائیں گے، ہندو بنیے کی ہر چال چاہے وہ دوستی ہو یا تجارت یا پھر جنگ کے پیچھے اکھنڈ بھارت کا خواب تھا اور رہے گا !


Saturday, July 2, 2022

ناقابلِ یقین قوم

ناقابل یقین قوم

 کرکٹ کے مبصرین پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو نام قابل یقین ٹیم کہتے ہیں۔ کیونکہ ہماری کارکردگی میں کبھی تسلسل نہیں رہتا اگر ہم پرفارم کرنے پر آتے ہیں تو ہم باٹم سے ٹاپ تک پہنچ جاتے ہیں ۔ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم ٹاپ پہ ہوتے ہیں اور اچانک باٹم میں جا گر تے ہیں ۔

 چمپین ٹرافی 2017 اور ورلڈ کپ 1999 اسکی واضح مثالیں ہیں ۔

 ہماری کرکٹ ٹیم کی طرح ہماری قوم بھی ناقابل یقین ہے اگر ہم اچھائی کرنے پر آئیں تو کوئی ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتا اور اگر ہم برائی کرنے پر آئی تو اس میں بھی ہمارا کوئی ثانی نہیں۔

 اگر ہمارے لوگ ہماری مینجمنٹ اور ہماری بیوروکریسی کام کرے تو منگلا ڈیم جیسے طویل المدت پروجیکٹ کو محض تین سال کے عرصے میں پایہ تکمیل تک پہنچا دیتے ہیں جو اپنی مثال آپ ہے اور دنیا اس پر حیران ہوتی ہے ۔ اور اگر ہم اپنی معیشت تباہ کرنے پہ آئیں تو کراچی جیسے ایشین ٹائیگر کو محض دس سالوں کے عرصے میں جہنم بنا کر رکھ دیتے ہیں ۔

 ہمارا مزاج بھی ناقابل یقین ہے ہم اگر کسی سےمحبت کرنے پر آئیں تو اس کی بڑی سے بڑی غلطی کو بھی رائی برابر اہمیت دیتے ہیں ۔ اور اگر کسی سے نفرت کرنے لگیں تو اس کی رائی برابر غلطی کو بھی پہاڑد بنا یتے ہیں۔

 پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں صبح کے شہ 

شام کو مجرم بن جاتے ہیں ۔

 ہماری سوچ، ہمارے مزاج، ہماری کارکردگی ، حتیٰ کہ ہماری مذہبی عبادات میں بھی تسلسل نہیں ہے۔

 ہماری ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہی غیر تسلسل اور غیر ذمہ داری ہے۔

 اگر ہم اپنے اندر تسلسل اور ذمہ داری کااحساس پیدا کرلیں تو ہم دنیا کی بہترین اقوام میں شامل ہو جائیں لیکن کجا !

 تسلسل کے ساتھ ساتھ صحیح سمت کا تعین بھی ہے ہماری قوم نے پچھلے 70 سالوں میں اپنی سمت کا تعین ہی نہیں کیا ۔ ہمارے مسائل کبھی ہماری ترجیح ہی نہیں رہے ہماری ترجیحات میں ہمارے مسائل اور ہماری کامیابی شامل ہی نہیں ہے ہم بس وقت گزارنے کے لئے آتے ہیں اور آنے والے لوگوں کے لیے نئے مسائل پیدا کر کے چلے جاتے ہیں

 ہمارے معاشرے کی کہاوت آدھی زندگی گزر گئی ہے اب پتہ نہیں کتنی باقی ہے کیا کرنی کوشش!!! جو نصیب میں ہوگا وہ مل جائے گا ۔

 شاید ہماری قوم کو یہ نہیں پتا کے نصیب بھی انہی لوگوں کا ساتھ دیتا ہے جن کی کارکردگی میں تسلسل اور سمت کا صحیح تعین شامل ہوتا ہے ۔

 اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں اپنی قوم سے مایوس ہوں بلکہ کوشش کر رہا ہوں کہ ہمارے نوجوانوں میں ایک ایسی سوچ پیدا کرنے کی کہ ہمیں اپنی کارکردگی میں تسلسل لانا ہے اور ماضی کی غلطیاں بھول کر نئے اور روشن مستقبل کے لیے تسلسل اور ذمہ داری کے ساتھ درست سمت کا تعین کرکے محنت کرنی ہے


#ذیشانیات 

Friday, July 1, 2022

رجیم چینج کی حقیقت

 ‏

 شمشاد احمد پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ ہیں۔ا سنہ 2000 سے 2002 تک وہ قوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے بھی رہے ہیں۔ آج انہیں ریجیم چینج آپریشن سیمنیار میں دعوتِ خطاب دی گئی تھی جہاں انہوں نے اس موضوع پر تاریخ کے حوالے دے کر شاندار، مدلل اور سنجیدہ تقریر کی۔‏انہوں نے پاکستان میں امریکی مداخلت کی تاریخ اور اسکی ابتدا کی وجوہات بتاتے ہوئے نئی نسل کو "یاد" کروایا کہ یہ موجودہ پاکستان اصل پاکستان نہیں ہے۔ اصل پاکستان تو مشرقی پاکستان تھا جہاں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی، جہاں کے دانشوروں اور سیاستدانوں نے علیحدہ ملک کے قیام کیلئے نہ صرف ‏سیاسی جدوجہد کی بلکہ اس کا عقلی اور علمی مقدمہ بھی انگریز کے سامنے لڑا۔


اُنکے مقابلے میں موجودہ پاکستان کے صوبوں میں نہ ویسا سیاسی شعور تھا، نہ ہی یہاں کا جاگیردار طبقہ انگریز سے آزادی چاہتا تھا اور نہ یہاں کی اشرافیہ سیاسی حرکیات کا ویسا اداراک رکھتی تھی جیسا بنگال میں تھا ‏وہ اصل پاکستان اس آج کے پاکستان کے الگ کیوں ہوا؟ بیرونی مداخلت اور سازش تو تھی ہی لیکن اصل کردار بھٹو اور فوج کے گٹھ جوڑ نے ادا کیا جنہوں نے مجیب کی پارلیمانی اکثریت کو ماننے سے انکار کردیا تھا۔‏پھر انہوں نے ہماری تاریخ سے حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ آزادی کے وقت "امپیرئیل کنکشن والی" ہماری سول-ملٹری بیوروکریسی امریکہ اور مغرب کو اپنا آقا سمجھتی تھی اور امریکی صدر سے توقع رکھتی تھی کہ وہ نہرو کی طرح لیاقت علی خان کو بھی دعوت نامہ دے گا۔ لیکن امریکہ کی توجہ کا مرکز نہرو  ‏اور ہندوستان تھا۔ یہ بے اعتنائی ہماری اُسوقت کی سول+فوجی بیوروکریسی کو ہضم نہیں ہورہی تھی جو ہر حال میں امریکی توجہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔ لہذا ایران میں پاکستانی اور روسی سفیر کی مدد سے سویت یونین سے لیاقت علی خان کے نام روسی دورے کا دعوت نامہ نکلوایا گیا۔‏اور پھر اس روسی دعوت نامے کو استعمال کرتے ہوئے امریکی صدر کی توجہ حاصل کر لی گئی۔ لیکن امریکہ کے دورے کے دوران صدر ٹرومین نے لیاقت علی خان سےفرمائش کی کہ پاکستان کورین جنگ میں شرکت کیلئے فوجی دستے بھیجے جس سے لیاقت علی نے معذرت کر لی اور یوں امریکہ بہادر ناراض ہو گیا۔‏لیاقت علی خان واپس آتے ہیں۔ اور پھر انہیں "مشورہ" دیا جاتا ہے کہ اب آپ روس کا بھی دورہ کر آئیں۔ لیکن روس کے دورے سے دو ہفتے قبل انکو شہید کردیا جاتا ہے۔ تو یہ مت سمجئیے کہ سازش امریکہ کرتا ہے۔ امریکی ناراضگی کو "ہمارے" لوگ یہاں  سے بھانپ لیتے ہیں اور پھر "اندر" سے سازش کرتے ہیں۔‏اُن کا کہنا ہے کہ جب بھی کسی سرکاری ملازم کو توسیع دی جاتی ہے تو وہ ادارے کے معیار کو نقصان پہنچاتی ہے۔ چاہے یہ توسیع فوجی سربراہ کو دی جائے یا چاہے کسی ستر سالہ سفارتکار کو۔اور عمران خان کے اقتدار میں یہ غلطی کئی جگہ دہرائی گئی۔‏شمشاد احمد کی عالمانہ تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ تو محض سازش کرتا ہے۔ لیک اسکو عملی جامہ ہمارے اپنے لوگ پہناتے ہیں۔ استعمال ہمارے اپنے لوگ ہوتے ہیں۔ آلہِ کار ہم لوگ خود بنتے ہیں۔ یہی ہماری تاریخ ہے۔


برادر Abid Raza Rao کی وال سے

Thursday, June 30, 2022

ایک جرنیل کا مکررہ چہرہ


پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک مکروہ چہرہ 

(یہ تصویر لگ بھگ اس زمانے کی ہے جب جنرل رانی کا ایوان صدر میں آنا جانا رہتا تھا)



اکلیم اختر، جو بعد ازاں جنرل رانی کے نام سے مشہور ہوئیں، پاکستان کے آمر عیاش فوجی صدر جنرل یحیی خان کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتی تھیں۔  قریبی ناجائز تعلقات کی بنا پر وہ جنرل یحیی کو “آغا جانی“ کے نام سے پکارتی تھیں اور ان ناجائز تعلقات کی بنیاد پر وہ نہایت مقبول اور انتہائی اختیارات کی حامل شمار ہوتی تھیں۔ اسی طاقت اور اختیار کی وجہ سے انھیں جنرل رانی کہا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل یحیی کے دور میں جنرل کے بعد اکلیم اختر پاکستان کی سب سے بااختیار شخصیت ہوا کرتی تھیں۔ ان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا، مگر پھر بھی انھیں سرکاری پروٹوکول دیا جاتا تھا۔


جنرل رانی پاکستان کے اس عیاش فوجی آمر کی زندگی کا واحد صفحہ نہیں تھا ۔حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کے مطابق یحیٰی خان شراب اور عورتوں کا رسیا تھا۔ اس کے جن عورتوں سے تعلقات تھےان میں آئی جی پولیس کی بیگم، بیگم شمیم این حسین، بیگم جوناگڑھ، میڈم نور جہاں، اقلیم اختر رانی،کراچی کے تاجر منصور ہیرجی کی بیوی، ایک جونیئر پولیس افسر کی بیوی، نازلی بیگم، میجر جنرل (ر) لطیف خان کی سابقہ بیوی، کراچی کی ایک رکھیل زینب اور اسی کی ہم نام سر خضر حیات ٹوانہ کے سابقہ بیگم، انورہ بیگم، ڈھاکہ سے ایک انڈسٹری کی مالکن،للّی خان اور لیلیٰ مزمل اور اداکاراؤں میں سے شبنم ، شگفتہ ، نغمہ ، ترانہ اور بے شمار دوسروں کے نام شامل تھے۔ ان کے علاوہ لا تعداد آرمی کے افسر اور جرنیل اپنی بیگمات اور دیگر رشتہ دار خواتین کے ہمراہ ایوانِ صدر سدھارتے اور واپسی پر خواتین ان کے ہمراہ نہیں ہوتی تھیں۔


اس رپورٹ میں 500 سے زائد خواتین کے نام شامل ہیں جنہوں نے اس ملک کے سب سے ملعون حاکم کے ساتھ تنہائی میں وقت گزارا اور بدلے میں سرکاری خزانے سے بیش بہا پیسہ اور دیگر مراعات حاصل کیں۔ جنرل نسیم ، حمید ، لطیف ، خداداد ، شاہد ، یعقوب ، ریاض پیرزادہ ، میاں اور کئی دوسروں کی بیویاں باقاعدگی سے یحیٰ کے حرم کی زینت بنتی رہیں۔


یہاں تک کہ جب ڈھاکہ میں حالات ابتر تھے۔ یحیٰ خان لاہور کا دورہ کرنے آتے اور گورنر ہاوس میں قیام کرتے تھے۔ جہاں ان کے قیام کے دوران دن میں کم از کم تین بار ملکہ ترنم و حسن وعشق نور جہاں مختلف قسم کے لباس، بناو سنگھار اور ہیر سٹائل کے ساتھ ان سے ملاقات کرنے تشریف لے جاتی تھیں۔ اور رات کو نور جہاں کی حاضری یقینی ہوتی تھی۔ جنرل رانی نے سابق آئی جی جیل خانہ جات حافظ قاسم کو بتایا کہ اس نے خود جنرل یحیٰ اور ملکہ ترنم نور جہاں کو بستر پر ننگے بیٹھے اور پھر جنرل کو نور جہاں کے جسم پر شراب بہا تے اور چاٹتے دیکھا تھا۔ اور یہ عین اس وقت کی بات ہے جب مشرقی پاکستان جل رہا تھا۔


بیگم شمیم این حسین رات گئے جنرل یحیٰ کو ملنے آتیں اور صبح واپس جاتیں۔ ان کے شوہر کو سوئٹزر لینڈ میں پاکستان کے سفیر کے طور پر بھیجا گیا جبکہ بعد ازاں بیگم شمیم کو آسٹریا کے لئے سفیر مقرر کردیا گیا تھا۔ میاں بیوی کو دونوں سفارت کاری کا کوئی تجربہ تھا نہ ہی امورِخارجہ کے شعبے سےان کا کوئی تعلق تھا۔


بیگم شمیم کے والد ، جسٹس (ر) امین احمد کو ڈائریکٹر نیشنل شپنگ کارپوریشن مقرر کیا گیا تھا اس وقت جب کہ وہ عمر میں ستر برس کے تھے۔ اور اسی زمانے میں نور جہاں ایک موسیقی کے میلے میں شرکت کرنےکے لئے ٹوکیو گئی تھیں تو ان کے ہمراہ ان کے خاندان کے بہت سے افراد سرکاری خرچ پر جاپان گئے تھے۔


 یحیٰ خان کی ایک رکھیل نازلی بیگم کو جب پی آئی سی آئی سی (بینک) کے ایم ڈی نے قرضہ نہیں دیا تو اس کو عہدے سے زبردستی بر خاست کر دیا گیا تھا۔ سٹینڈرڈ بینک کے فنڈز سے راولپنڈی کی ہارلے سٹریٹ پر یحیٰ خان نے ایک گھر بنایا جس کی تزئین وآرئش بھی بینک کے پیسے سے کی گئی۔ یحیٰ اور ان کے چیف آف اسٹاف جنرل عبدالحمید خان اس گھر کے احاطے میں فوج کی حفاظت میں طوائفوں کے ساتھ وقت گزارتے تھے۔


اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔

یہ ہیں جمہوری لوگ

 یہ ہیں جمہوری لوگ 

آج ایاز میر نے عمران خان کے سامنے جس لب و لہجے میں ان کو ہدف تنقید بنایا اور جو الفاظ استعمال کیے ، وہ بادشاہ مزاج تو سننا گوارہ ہی نہیں کر سکتے۔ جس وقت وہ کہہ رہا تھا کہ دماغ سے یہ خباثت نکال دیں ۔۔۔۔۔ جب وہ کہہ رہا تھا کہ ہم نے سنا تھا کہ خان یہ کر دے گا وہ کر دے ، کم از کم آپ اصول پہ تو سمجھوتہ نہ کرتے ، جب وہ خان صاحب کی ذات کو ٹارگٹ بنا رہا تھا تب ہال تالیوں سے گونج رہا تھا اور خان صاحب زندہ دلی سے مسکراتے ہوئے یہ نشتر اپنے سینے پہ لے رہے تھے ۔

یہی نہیں وہ انصافی جو عمران خان کے خلاف ہلکہ الفاظ پہ بھی مخالفین کا تیا پانچہ کر دیتے ہیں وہ آج ایاز میر کی تقریر لگا کر اسے خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔ سب اسے اپنے دل کی آواز قرار دے رہے ہیں۔ یہی جمہوریت کا حسن ہے جہاں مثبت تنقید کو چندہ پیشانی سے قبول کیا جائے۔ الحمدللہ عمران خان کے فالورز میں بھی سیاسی شعور دیگر تمام جماعتوں کے مقابلے میں سو گنا زیادہ ہے۔ 

سچ یہی ہے کہ نظریاتی کارکن صرف تحریک انصاف میں ہیں جن میں بلا کا عزم و حوصلہ بھی ہے ش برداشت بھی ہے اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی سخت سے سخت مخالفین کے سامنے لڑنے کا حوصلہ بھی ہے۔ یہاں آپ کو لبرل بھی اصلی ملیں اور مذہبی بھی خالص ۔۔۔۔ یہاں آپ کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ بھی خالص ملیں گے اور اینٹی فاشسٹ بھی ۔۔۔۔ یہاں آپ کو آزاد سوچ اور فکر کے مالک سپورٹرز ملیں گے۔ یہی پاکستان کا روشن مستقبل ہیں۔

Saturday, June 4, 2022

محبت جب نفرت بنے۔۔۔۔

 ہم ہتھیار نہیں اٹھا سکتے

ہم مہنگای کیوجہ سے باہر سڑکوں پر بھی نہیں نکل سکتے۔کیونکہ پیچھے بچے بھوک سے روئیں گے اور ہم سے وہ تکلیف دیکھی نہیں جاتی۔

تم نے ہمیں کسی قابل نہیں چھوڑا۔

ہم یہ سمجھتے رہے کہ تم ہمارے محافظ ہو۔لیکن جب عین وقت چوروں کو پکڑنے کا وقت آیا تو تم نیوٹرل ہو گئے۔ہمیں اندازہ ہو گیا تم اندر سے ملے ہوے تھے لیکن ہمارے سامنے دکھاوا کرتے تھے۔

ہم کچھ نہیں کرتے بس ایک کام ضرور کریں گے۔ہم آج سے یکطرفہ محبت ختم کرتے ہیں۔ہم تم سے نفرت کرتے ہیں اور یہ نفرت آنے والی نسلوں میں بھی کنورٹ کریں گے۔پہلے ہم تمہیں دیکھ کر ہاتھ ہلاتے تھے مگر اب منہ پھیر لیں گے۔تمہارے لیے ہماری طرف سے یہی سزا کافی ہے۔۔آپ کیلیے کرپشن مسلہ نہیں لیکن اسی کرپشن کیوجہ سے ہمارا ملک غریب ہے۔جہاں کرپشن مسلہ ہے وہ سب ممالک ترقی یافتہ ہیں۔تمہاری یہی سوچ ہمیں ڈبو گئ۔۔آپ سب اندر سے ملے ہوے ہیں۔آپ سب کے کاروباری مفاد ہیں۔اور ہم سمجھتے رہے ہمارے لیے آپ لڑتے ہیں۔

لوگ کہا کہیں گے.... مت سوچ

 لوگ کیا کہیں گے؟

آج کل کے بڑے بڑے مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ'' لوگ کیا کہیں گے؟؟''

 میں کہتا ہوں، چھوڑیئے لوگوں کو ان کا تو کام ہی کہنا آپ جو مرضی کر لیں، لوگوں کو خوش کرنے کے لیئے اپنی گردن بھی کٹا دیں تب بھی بعض لوگ یہی کہیں گے۔'' صفائی سے نہیں کٹی'' سو۔۔۔۔'' کچھ تو لوگ کہیں گے لوگوں کا تو کام ہے کہنا''

 چار دن کی زندگی ہے اس میں بھی سب کو خوش کرنے میں اپنا آپ ہلکان کر ڈالیں اور نتیجہ صفر کا صفر تو کیا ضرورت پڑی ہے۔

خود پر توجہ دیجیئے۔۔۔ اپنا خیال خود رکھنا سیکھیئے۔ ہماری ذات بہت سے معاملات میں ہماری توجہ چاہتی ہے اور ہم اپنی توجہ یونہی ایرے غیرے نتھو خیرے قسم کے لوگوں پر مرکوز کر کے اپنی ذات کو مسائل کے ملبے تلے دبا کر اس سے آنکھیں چرائے دوسروں کی ذات میں خوشیاں بکھیرنے کی لاحاصل کوششوں میں مصروف رہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہماری اپنی شخصیت شکست و ریخت کا شکار ہوکر ایک دن نیست و نابود ہو جاتی ہے۔

 سو لوگوں کو خوش کرنے یا ان کی چمچہ گیری کرنے سے بہتر ہے اپنی ذات پر توجہ دیجئے اسے پالش کیجئے لوگ خود آپ کی طرف بڑھیں گے۔ ہاں باتیں بنانا پھر بھی نہیں چھوڑیں گے۔لیکن کم از کم ہمیں ان سے کوئی شکایت تو نہ ہوگی؟۔۔ ہماری ذات پر تنقید کریں گے تو بھی ہمارا فائدہ۔ہمیں مزید اپنی خامیوں کے بارے میں آگاہی ہوگی۔ ہماری تعریف کریں گے تو بھی ہمارا فائدہ کہ کچھ تو ہے ہم میں۔

لوگوں کو ان کے کہنے کو ہرگز خود پر سوار مت کریں۔۔ بلکہ لوگوں کے دل و دماغ میں رہنا سیکھیئے۔۔۔۔ جو آپ کو سراہ رہا ہے یقیناً آپ اس کے دل میں ہیں۔ جو آپ پر کڑی تنقید کر رہا ہے یقیناً آپ اس کے دل و دماغ میں بس رہے ہیں۔۔۔ایسے لوگوں کی باتوں پر قطعاً دھیان مت دیجیئے۔ سب کے دکھ، سکھ میں شریک ہوں لیکن یاد رکھیئے سب کو خوش کرنے کا ٹھیکہ آپ نے نہیں لیا ہوا۔ اور نہ ہی آپ کے ایسا کچھ کرنے سے کسی نے خوش ہوجانا ہے۔۔۔ پھر فائدہ ناحق اپنا وقت برباد کرنے سے؟۔

دوسروں کو خوش رکھیئے ضرور رکھیئے لیکن اس سے پہلے خود خوش رہیے۔ اپنے لبوں پر مسکان سجایئے۔۔زندہ دلی سے جینا سیکھیئے، ہنسیئے۔ کھلکھلائے بنا اس بات کی پرواہ کیئے کہ

” لوگ کیا کہیں گے“

#ذیشانیات

آزادی کی قیمت ہم کیا جانیں

 باجے بجاتی ناچتی گاتی ہّلڑ باز قوم نما ہجوم کے لیے ! ""15 اگست 1947 کو جب بھارت پر آزادی کی دیوی کا نزول ہوا تو امرتسر شہر نے اس ...