شمشاد احمد پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ ہیں۔ا سنہ 2000 سے 2002 تک وہ قوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے بھی رہے ہیں۔ آج انہیں ریجیم چینج آپریشن سیمنیار میں دعوتِ خطاب دی گئی تھی جہاں انہوں نے اس موضوع پر تاریخ کے حوالے دے کر شاندار، مدلل اور سنجیدہ تقریر کی۔انہوں نے پاکستان میں امریکی مداخلت کی تاریخ اور اسکی ابتدا کی وجوہات بتاتے ہوئے نئی نسل کو "یاد" کروایا کہ یہ موجودہ پاکستان اصل پاکستان نہیں ہے۔ اصل پاکستان تو مشرقی پاکستان تھا جہاں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی، جہاں کے دانشوروں اور سیاستدانوں نے علیحدہ ملک کے قیام کیلئے نہ صرف سیاسی جدوجہد کی بلکہ اس کا عقلی اور علمی مقدمہ بھی انگریز کے سامنے لڑا۔
اُنکے مقابلے میں موجودہ پاکستان کے صوبوں میں نہ ویسا سیاسی شعور تھا، نہ ہی یہاں کا جاگیردار طبقہ انگریز سے آزادی چاہتا تھا اور نہ یہاں کی اشرافیہ سیاسی حرکیات کا ویسا اداراک رکھتی تھی جیسا بنگال میں تھا وہ اصل پاکستان اس آج کے پاکستان کے الگ کیوں ہوا؟ بیرونی مداخلت اور سازش تو تھی ہی لیکن اصل کردار بھٹو اور فوج کے گٹھ جوڑ نے ادا کیا جنہوں نے مجیب کی پارلیمانی اکثریت کو ماننے سے انکار کردیا تھا۔پھر انہوں نے ہماری تاریخ سے حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ آزادی کے وقت "امپیرئیل کنکشن والی" ہماری سول-ملٹری بیوروکریسی امریکہ اور مغرب کو اپنا آقا سمجھتی تھی اور امریکی صدر سے توقع رکھتی تھی کہ وہ نہرو کی طرح لیاقت علی خان کو بھی دعوت نامہ دے گا۔ لیکن امریکہ کی توجہ کا مرکز نہرو اور ہندوستان تھا۔ یہ بے اعتنائی ہماری اُسوقت کی سول+فوجی بیوروکریسی کو ہضم نہیں ہورہی تھی جو ہر حال میں امریکی توجہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔ لہذا ایران میں پاکستانی اور روسی سفیر کی مدد سے سویت یونین سے لیاقت علی خان کے نام روسی دورے کا دعوت نامہ نکلوایا گیا۔اور پھر اس روسی دعوت نامے کو استعمال کرتے ہوئے امریکی صدر کی توجہ حاصل کر لی گئی۔ لیکن امریکہ کے دورے کے دوران صدر ٹرومین نے لیاقت علی خان سےفرمائش کی کہ پاکستان کورین جنگ میں شرکت کیلئے فوجی دستے بھیجے جس سے لیاقت علی نے معذرت کر لی اور یوں امریکہ بہادر ناراض ہو گیا۔لیاقت علی خان واپس آتے ہیں۔ اور پھر انہیں "مشورہ" دیا جاتا ہے کہ اب آپ روس کا بھی دورہ کر آئیں۔ لیکن روس کے دورے سے دو ہفتے قبل انکو شہید کردیا جاتا ہے۔ تو یہ مت سمجئیے کہ سازش امریکہ کرتا ہے۔ امریکی ناراضگی کو "ہمارے" لوگ یہاں سے بھانپ لیتے ہیں اور پھر "اندر" سے سازش کرتے ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ جب بھی کسی سرکاری ملازم کو توسیع دی جاتی ہے تو وہ ادارے کے معیار کو نقصان پہنچاتی ہے۔ چاہے یہ توسیع فوجی سربراہ کو دی جائے یا چاہے کسی ستر سالہ سفارتکار کو۔اور عمران خان کے اقتدار میں یہ غلطی کئی جگہ دہرائی گئی۔شمشاد احمد کی عالمانہ تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ تو محض سازش کرتا ہے۔ لیک اسکو عملی جامہ ہمارے اپنے لوگ پہناتے ہیں۔ استعمال ہمارے اپنے لوگ ہوتے ہیں۔ آلہِ کار ہم لوگ خود بنتے ہیں۔ یہی ہماری تاریخ ہے۔
برادر Abid Raza Rao کی وال سے
No comments:
Post a Comment