Saturday, July 2, 2022

ناقابلِ یقین قوم

ناقابل یقین قوم

 کرکٹ کے مبصرین پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو نام قابل یقین ٹیم کہتے ہیں۔ کیونکہ ہماری کارکردگی میں کبھی تسلسل نہیں رہتا اگر ہم پرفارم کرنے پر آتے ہیں تو ہم باٹم سے ٹاپ تک پہنچ جاتے ہیں ۔ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم ٹاپ پہ ہوتے ہیں اور اچانک باٹم میں جا گر تے ہیں ۔

 چمپین ٹرافی 2017 اور ورلڈ کپ 1999 اسکی واضح مثالیں ہیں ۔

 ہماری کرکٹ ٹیم کی طرح ہماری قوم بھی ناقابل یقین ہے اگر ہم اچھائی کرنے پر آئیں تو کوئی ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتا اور اگر ہم برائی کرنے پر آئی تو اس میں بھی ہمارا کوئی ثانی نہیں۔

 اگر ہمارے لوگ ہماری مینجمنٹ اور ہماری بیوروکریسی کام کرے تو منگلا ڈیم جیسے طویل المدت پروجیکٹ کو محض تین سال کے عرصے میں پایہ تکمیل تک پہنچا دیتے ہیں جو اپنی مثال آپ ہے اور دنیا اس پر حیران ہوتی ہے ۔ اور اگر ہم اپنی معیشت تباہ کرنے پہ آئیں تو کراچی جیسے ایشین ٹائیگر کو محض دس سالوں کے عرصے میں جہنم بنا کر رکھ دیتے ہیں ۔

 ہمارا مزاج بھی ناقابل یقین ہے ہم اگر کسی سےمحبت کرنے پر آئیں تو اس کی بڑی سے بڑی غلطی کو بھی رائی برابر اہمیت دیتے ہیں ۔ اور اگر کسی سے نفرت کرنے لگیں تو اس کی رائی برابر غلطی کو بھی پہاڑد بنا یتے ہیں۔

 پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں صبح کے شہ 

شام کو مجرم بن جاتے ہیں ۔

 ہماری سوچ، ہمارے مزاج، ہماری کارکردگی ، حتیٰ کہ ہماری مذہبی عبادات میں بھی تسلسل نہیں ہے۔

 ہماری ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہی غیر تسلسل اور غیر ذمہ داری ہے۔

 اگر ہم اپنے اندر تسلسل اور ذمہ داری کااحساس پیدا کرلیں تو ہم دنیا کی بہترین اقوام میں شامل ہو جائیں لیکن کجا !

 تسلسل کے ساتھ ساتھ صحیح سمت کا تعین بھی ہے ہماری قوم نے پچھلے 70 سالوں میں اپنی سمت کا تعین ہی نہیں کیا ۔ ہمارے مسائل کبھی ہماری ترجیح ہی نہیں رہے ہماری ترجیحات میں ہمارے مسائل اور ہماری کامیابی شامل ہی نہیں ہے ہم بس وقت گزارنے کے لئے آتے ہیں اور آنے والے لوگوں کے لیے نئے مسائل پیدا کر کے چلے جاتے ہیں

 ہمارے معاشرے کی کہاوت آدھی زندگی گزر گئی ہے اب پتہ نہیں کتنی باقی ہے کیا کرنی کوشش!!! جو نصیب میں ہوگا وہ مل جائے گا ۔

 شاید ہماری قوم کو یہ نہیں پتا کے نصیب بھی انہی لوگوں کا ساتھ دیتا ہے جن کی کارکردگی میں تسلسل اور سمت کا صحیح تعین شامل ہوتا ہے ۔

 اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں اپنی قوم سے مایوس ہوں بلکہ کوشش کر رہا ہوں کہ ہمارے نوجوانوں میں ایک ایسی سوچ پیدا کرنے کی کہ ہمیں اپنی کارکردگی میں تسلسل لانا ہے اور ماضی کی غلطیاں بھول کر نئے اور روشن مستقبل کے لیے تسلسل اور ذمہ داری کے ساتھ درست سمت کا تعین کرکے محنت کرنی ہے


#ذیشانیات 

Friday, July 1, 2022

رجیم چینج کی حقیقت

 ‏

 شمشاد احمد پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ ہیں۔ا سنہ 2000 سے 2002 تک وہ قوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے بھی رہے ہیں۔ آج انہیں ریجیم چینج آپریشن سیمنیار میں دعوتِ خطاب دی گئی تھی جہاں انہوں نے اس موضوع پر تاریخ کے حوالے دے کر شاندار، مدلل اور سنجیدہ تقریر کی۔‏انہوں نے پاکستان میں امریکی مداخلت کی تاریخ اور اسکی ابتدا کی وجوہات بتاتے ہوئے نئی نسل کو "یاد" کروایا کہ یہ موجودہ پاکستان اصل پاکستان نہیں ہے۔ اصل پاکستان تو مشرقی پاکستان تھا جہاں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی، جہاں کے دانشوروں اور سیاستدانوں نے علیحدہ ملک کے قیام کیلئے نہ صرف ‏سیاسی جدوجہد کی بلکہ اس کا عقلی اور علمی مقدمہ بھی انگریز کے سامنے لڑا۔


اُنکے مقابلے میں موجودہ پاکستان کے صوبوں میں نہ ویسا سیاسی شعور تھا، نہ ہی یہاں کا جاگیردار طبقہ انگریز سے آزادی چاہتا تھا اور نہ یہاں کی اشرافیہ سیاسی حرکیات کا ویسا اداراک رکھتی تھی جیسا بنگال میں تھا ‏وہ اصل پاکستان اس آج کے پاکستان کے الگ کیوں ہوا؟ بیرونی مداخلت اور سازش تو تھی ہی لیکن اصل کردار بھٹو اور فوج کے گٹھ جوڑ نے ادا کیا جنہوں نے مجیب کی پارلیمانی اکثریت کو ماننے سے انکار کردیا تھا۔‏پھر انہوں نے ہماری تاریخ سے حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ آزادی کے وقت "امپیرئیل کنکشن والی" ہماری سول-ملٹری بیوروکریسی امریکہ اور مغرب کو اپنا آقا سمجھتی تھی اور امریکی صدر سے توقع رکھتی تھی کہ وہ نہرو کی طرح لیاقت علی خان کو بھی دعوت نامہ دے گا۔ لیکن امریکہ کی توجہ کا مرکز نہرو  ‏اور ہندوستان تھا۔ یہ بے اعتنائی ہماری اُسوقت کی سول+فوجی بیوروکریسی کو ہضم نہیں ہورہی تھی جو ہر حال میں امریکی توجہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔ لہذا ایران میں پاکستانی اور روسی سفیر کی مدد سے سویت یونین سے لیاقت علی خان کے نام روسی دورے کا دعوت نامہ نکلوایا گیا۔‏اور پھر اس روسی دعوت نامے کو استعمال کرتے ہوئے امریکی صدر کی توجہ حاصل کر لی گئی۔ لیکن امریکہ کے دورے کے دوران صدر ٹرومین نے لیاقت علی خان سےفرمائش کی کہ پاکستان کورین جنگ میں شرکت کیلئے فوجی دستے بھیجے جس سے لیاقت علی نے معذرت کر لی اور یوں امریکہ بہادر ناراض ہو گیا۔‏لیاقت علی خان واپس آتے ہیں۔ اور پھر انہیں "مشورہ" دیا جاتا ہے کہ اب آپ روس کا بھی دورہ کر آئیں۔ لیکن روس کے دورے سے دو ہفتے قبل انکو شہید کردیا جاتا ہے۔ تو یہ مت سمجئیے کہ سازش امریکہ کرتا ہے۔ امریکی ناراضگی کو "ہمارے" لوگ یہاں  سے بھانپ لیتے ہیں اور پھر "اندر" سے سازش کرتے ہیں۔‏اُن کا کہنا ہے کہ جب بھی کسی سرکاری ملازم کو توسیع دی جاتی ہے تو وہ ادارے کے معیار کو نقصان پہنچاتی ہے۔ چاہے یہ توسیع فوجی سربراہ کو دی جائے یا چاہے کسی ستر سالہ سفارتکار کو۔اور عمران خان کے اقتدار میں یہ غلطی کئی جگہ دہرائی گئی۔‏شمشاد احمد کی عالمانہ تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ تو محض سازش کرتا ہے۔ لیک اسکو عملی جامہ ہمارے اپنے لوگ پہناتے ہیں۔ استعمال ہمارے اپنے لوگ ہوتے ہیں۔ آلہِ کار ہم لوگ خود بنتے ہیں۔ یہی ہماری تاریخ ہے۔


برادر Abid Raza Rao کی وال سے

آزادی کی قیمت ہم کیا جانیں

 باجے بجاتی ناچتی گاتی ہّلڑ باز قوم نما ہجوم کے لیے ! ""15 اگست 1947 کو جب بھارت پر آزادی کی دیوی کا نزول ہوا تو امرتسر شہر نے اس ...