پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک مکروہ چہرہ
(یہ تصویر لگ بھگ اس زمانے کی ہے جب جنرل رانی کا ایوان صدر میں آنا جانا رہتا تھا)
اکلیم اختر، جو بعد ازاں جنرل رانی کے نام سے مشہور ہوئیں، پاکستان کے آمر عیاش فوجی صدر جنرل یحیی خان کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتی تھیں۔ قریبی ناجائز تعلقات کی بنا پر وہ جنرل یحیی کو “آغا جانی“ کے نام سے پکارتی تھیں اور ان ناجائز تعلقات کی بنیاد پر وہ نہایت مقبول اور انتہائی اختیارات کی حامل شمار ہوتی تھیں۔ اسی طاقت اور اختیار کی وجہ سے انھیں جنرل رانی کہا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل یحیی کے دور میں جنرل کے بعد اکلیم اختر پاکستان کی سب سے بااختیار شخصیت ہوا کرتی تھیں۔ ان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا، مگر پھر بھی انھیں سرکاری پروٹوکول دیا جاتا تھا۔
جنرل رانی پاکستان کے اس عیاش فوجی آمر کی زندگی کا واحد صفحہ نہیں تھا ۔حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کے مطابق یحیٰی خان شراب اور عورتوں کا رسیا تھا۔ اس کے جن عورتوں سے تعلقات تھےان میں آئی جی پولیس کی بیگم، بیگم شمیم این حسین، بیگم جوناگڑھ، میڈم نور جہاں، اقلیم اختر رانی،کراچی کے تاجر منصور ہیرجی کی بیوی، ایک جونیئر پولیس افسر کی بیوی، نازلی بیگم، میجر جنرل (ر) لطیف خان کی سابقہ بیوی، کراچی کی ایک رکھیل زینب اور اسی کی ہم نام سر خضر حیات ٹوانہ کے سابقہ بیگم، انورہ بیگم، ڈھاکہ سے ایک انڈسٹری کی مالکن،للّی خان اور لیلیٰ مزمل اور اداکاراؤں میں سے شبنم ، شگفتہ ، نغمہ ، ترانہ اور بے شمار دوسروں کے نام شامل تھے۔ ان کے علاوہ لا تعداد آرمی کے افسر اور جرنیل اپنی بیگمات اور دیگر رشتہ دار خواتین کے ہمراہ ایوانِ صدر سدھارتے اور واپسی پر خواتین ان کے ہمراہ نہیں ہوتی تھیں۔
اس رپورٹ میں 500 سے زائد خواتین کے نام شامل ہیں جنہوں نے اس ملک کے سب سے ملعون حاکم کے ساتھ تنہائی میں وقت گزارا اور بدلے میں سرکاری خزانے سے بیش بہا پیسہ اور دیگر مراعات حاصل کیں۔ جنرل نسیم ، حمید ، لطیف ، خداداد ، شاہد ، یعقوب ، ریاض پیرزادہ ، میاں اور کئی دوسروں کی بیویاں باقاعدگی سے یحیٰ کے حرم کی زینت بنتی رہیں۔
یہاں تک کہ جب ڈھاکہ میں حالات ابتر تھے۔ یحیٰ خان لاہور کا دورہ کرنے آتے اور گورنر ہاوس میں قیام کرتے تھے۔ جہاں ان کے قیام کے دوران دن میں کم از کم تین بار ملکہ ترنم و حسن وعشق نور جہاں مختلف قسم کے لباس، بناو سنگھار اور ہیر سٹائل کے ساتھ ان سے ملاقات کرنے تشریف لے جاتی تھیں۔ اور رات کو نور جہاں کی حاضری یقینی ہوتی تھی۔ جنرل رانی نے سابق آئی جی جیل خانہ جات حافظ قاسم کو بتایا کہ اس نے خود جنرل یحیٰ اور ملکہ ترنم نور جہاں کو بستر پر ننگے بیٹھے اور پھر جنرل کو نور جہاں کے جسم پر شراب بہا تے اور چاٹتے دیکھا تھا۔ اور یہ عین اس وقت کی بات ہے جب مشرقی پاکستان جل رہا تھا۔
بیگم شمیم این حسین رات گئے جنرل یحیٰ کو ملنے آتیں اور صبح واپس جاتیں۔ ان کے شوہر کو سوئٹزر لینڈ میں پاکستان کے سفیر کے طور پر بھیجا گیا جبکہ بعد ازاں بیگم شمیم کو آسٹریا کے لئے سفیر مقرر کردیا گیا تھا۔ میاں بیوی کو دونوں سفارت کاری کا کوئی تجربہ تھا نہ ہی امورِخارجہ کے شعبے سےان کا کوئی تعلق تھا۔
بیگم شمیم کے والد ، جسٹس (ر) امین احمد کو ڈائریکٹر نیشنل شپنگ کارپوریشن مقرر کیا گیا تھا اس وقت جب کہ وہ عمر میں ستر برس کے تھے۔ اور اسی زمانے میں نور جہاں ایک موسیقی کے میلے میں شرکت کرنےکے لئے ٹوکیو گئی تھیں تو ان کے ہمراہ ان کے خاندان کے بہت سے افراد سرکاری خرچ پر جاپان گئے تھے۔
یحیٰ خان کی ایک رکھیل نازلی بیگم کو جب پی آئی سی آئی سی (بینک) کے ایم ڈی نے قرضہ نہیں دیا تو اس کو عہدے سے زبردستی بر خاست کر دیا گیا تھا۔ سٹینڈرڈ بینک کے فنڈز سے راولپنڈی کی ہارلے سٹریٹ پر یحیٰ خان نے ایک گھر بنایا جس کی تزئین وآرئش بھی بینک کے پیسے سے کی گئی۔ یحیٰ اور ان کے چیف آف اسٹاف جنرل عبدالحمید خان اس گھر کے احاطے میں فوج کی حفاظت میں طوائفوں کے ساتھ وقت گزارتے تھے۔
اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔