Thursday, June 30, 2022

ایک جرنیل کا مکررہ چہرہ


پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک مکروہ چہرہ 

(یہ تصویر لگ بھگ اس زمانے کی ہے جب جنرل رانی کا ایوان صدر میں آنا جانا رہتا تھا)



اکلیم اختر، جو بعد ازاں جنرل رانی کے نام سے مشہور ہوئیں، پاکستان کے آمر عیاش فوجی صدر جنرل یحیی خان کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتی تھیں۔  قریبی ناجائز تعلقات کی بنا پر وہ جنرل یحیی کو “آغا جانی“ کے نام سے پکارتی تھیں اور ان ناجائز تعلقات کی بنیاد پر وہ نہایت مقبول اور انتہائی اختیارات کی حامل شمار ہوتی تھیں۔ اسی طاقت اور اختیار کی وجہ سے انھیں جنرل رانی کہا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل یحیی کے دور میں جنرل کے بعد اکلیم اختر پاکستان کی سب سے بااختیار شخصیت ہوا کرتی تھیں۔ ان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا، مگر پھر بھی انھیں سرکاری پروٹوکول دیا جاتا تھا۔


جنرل رانی پاکستان کے اس عیاش فوجی آمر کی زندگی کا واحد صفحہ نہیں تھا ۔حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کے مطابق یحیٰی خان شراب اور عورتوں کا رسیا تھا۔ اس کے جن عورتوں سے تعلقات تھےان میں آئی جی پولیس کی بیگم، بیگم شمیم این حسین، بیگم جوناگڑھ، میڈم نور جہاں، اقلیم اختر رانی،کراچی کے تاجر منصور ہیرجی کی بیوی، ایک جونیئر پولیس افسر کی بیوی، نازلی بیگم، میجر جنرل (ر) لطیف خان کی سابقہ بیوی، کراچی کی ایک رکھیل زینب اور اسی کی ہم نام سر خضر حیات ٹوانہ کے سابقہ بیگم، انورہ بیگم، ڈھاکہ سے ایک انڈسٹری کی مالکن،للّی خان اور لیلیٰ مزمل اور اداکاراؤں میں سے شبنم ، شگفتہ ، نغمہ ، ترانہ اور بے شمار دوسروں کے نام شامل تھے۔ ان کے علاوہ لا تعداد آرمی کے افسر اور جرنیل اپنی بیگمات اور دیگر رشتہ دار خواتین کے ہمراہ ایوانِ صدر سدھارتے اور واپسی پر خواتین ان کے ہمراہ نہیں ہوتی تھیں۔


اس رپورٹ میں 500 سے زائد خواتین کے نام شامل ہیں جنہوں نے اس ملک کے سب سے ملعون حاکم کے ساتھ تنہائی میں وقت گزارا اور بدلے میں سرکاری خزانے سے بیش بہا پیسہ اور دیگر مراعات حاصل کیں۔ جنرل نسیم ، حمید ، لطیف ، خداداد ، شاہد ، یعقوب ، ریاض پیرزادہ ، میاں اور کئی دوسروں کی بیویاں باقاعدگی سے یحیٰ کے حرم کی زینت بنتی رہیں۔


یہاں تک کہ جب ڈھاکہ میں حالات ابتر تھے۔ یحیٰ خان لاہور کا دورہ کرنے آتے اور گورنر ہاوس میں قیام کرتے تھے۔ جہاں ان کے قیام کے دوران دن میں کم از کم تین بار ملکہ ترنم و حسن وعشق نور جہاں مختلف قسم کے لباس، بناو سنگھار اور ہیر سٹائل کے ساتھ ان سے ملاقات کرنے تشریف لے جاتی تھیں۔ اور رات کو نور جہاں کی حاضری یقینی ہوتی تھی۔ جنرل رانی نے سابق آئی جی جیل خانہ جات حافظ قاسم کو بتایا کہ اس نے خود جنرل یحیٰ اور ملکہ ترنم نور جہاں کو بستر پر ننگے بیٹھے اور پھر جنرل کو نور جہاں کے جسم پر شراب بہا تے اور چاٹتے دیکھا تھا۔ اور یہ عین اس وقت کی بات ہے جب مشرقی پاکستان جل رہا تھا۔


بیگم شمیم این حسین رات گئے جنرل یحیٰ کو ملنے آتیں اور صبح واپس جاتیں۔ ان کے شوہر کو سوئٹزر لینڈ میں پاکستان کے سفیر کے طور پر بھیجا گیا جبکہ بعد ازاں بیگم شمیم کو آسٹریا کے لئے سفیر مقرر کردیا گیا تھا۔ میاں بیوی کو دونوں سفارت کاری کا کوئی تجربہ تھا نہ ہی امورِخارجہ کے شعبے سےان کا کوئی تعلق تھا۔


بیگم شمیم کے والد ، جسٹس (ر) امین احمد کو ڈائریکٹر نیشنل شپنگ کارپوریشن مقرر کیا گیا تھا اس وقت جب کہ وہ عمر میں ستر برس کے تھے۔ اور اسی زمانے میں نور جہاں ایک موسیقی کے میلے میں شرکت کرنےکے لئے ٹوکیو گئی تھیں تو ان کے ہمراہ ان کے خاندان کے بہت سے افراد سرکاری خرچ پر جاپان گئے تھے۔


 یحیٰ خان کی ایک رکھیل نازلی بیگم کو جب پی آئی سی آئی سی (بینک) کے ایم ڈی نے قرضہ نہیں دیا تو اس کو عہدے سے زبردستی بر خاست کر دیا گیا تھا۔ سٹینڈرڈ بینک کے فنڈز سے راولپنڈی کی ہارلے سٹریٹ پر یحیٰ خان نے ایک گھر بنایا جس کی تزئین وآرئش بھی بینک کے پیسے سے کی گئی۔ یحیٰ اور ان کے چیف آف اسٹاف جنرل عبدالحمید خان اس گھر کے احاطے میں فوج کی حفاظت میں طوائفوں کے ساتھ وقت گزارتے تھے۔


اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔

یہ ہیں جمہوری لوگ

 یہ ہیں جمہوری لوگ 

آج ایاز میر نے عمران خان کے سامنے جس لب و لہجے میں ان کو ہدف تنقید بنایا اور جو الفاظ استعمال کیے ، وہ بادشاہ مزاج تو سننا گوارہ ہی نہیں کر سکتے۔ جس وقت وہ کہہ رہا تھا کہ دماغ سے یہ خباثت نکال دیں ۔۔۔۔۔ جب وہ کہہ رہا تھا کہ ہم نے سنا تھا کہ خان یہ کر دے گا وہ کر دے ، کم از کم آپ اصول پہ تو سمجھوتہ نہ کرتے ، جب وہ خان صاحب کی ذات کو ٹارگٹ بنا رہا تھا تب ہال تالیوں سے گونج رہا تھا اور خان صاحب زندہ دلی سے مسکراتے ہوئے یہ نشتر اپنے سینے پہ لے رہے تھے ۔

یہی نہیں وہ انصافی جو عمران خان کے خلاف ہلکہ الفاظ پہ بھی مخالفین کا تیا پانچہ کر دیتے ہیں وہ آج ایاز میر کی تقریر لگا کر اسے خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔ سب اسے اپنے دل کی آواز قرار دے رہے ہیں۔ یہی جمہوریت کا حسن ہے جہاں مثبت تنقید کو چندہ پیشانی سے قبول کیا جائے۔ الحمدللہ عمران خان کے فالورز میں بھی سیاسی شعور دیگر تمام جماعتوں کے مقابلے میں سو گنا زیادہ ہے۔ 

سچ یہی ہے کہ نظریاتی کارکن صرف تحریک انصاف میں ہیں جن میں بلا کا عزم و حوصلہ بھی ہے ش برداشت بھی ہے اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی سخت سے سخت مخالفین کے سامنے لڑنے کا حوصلہ بھی ہے۔ یہاں آپ کو لبرل بھی اصلی ملیں اور مذہبی بھی خالص ۔۔۔۔ یہاں آپ کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ بھی خالص ملیں گے اور اینٹی فاشسٹ بھی ۔۔۔۔ یہاں آپ کو آزاد سوچ اور فکر کے مالک سپورٹرز ملیں گے۔ یہی پاکستان کا روشن مستقبل ہیں۔

Saturday, June 4, 2022

محبت جب نفرت بنے۔۔۔۔

 ہم ہتھیار نہیں اٹھا سکتے

ہم مہنگای کیوجہ سے باہر سڑکوں پر بھی نہیں نکل سکتے۔کیونکہ پیچھے بچے بھوک سے روئیں گے اور ہم سے وہ تکلیف دیکھی نہیں جاتی۔

تم نے ہمیں کسی قابل نہیں چھوڑا۔

ہم یہ سمجھتے رہے کہ تم ہمارے محافظ ہو۔لیکن جب عین وقت چوروں کو پکڑنے کا وقت آیا تو تم نیوٹرل ہو گئے۔ہمیں اندازہ ہو گیا تم اندر سے ملے ہوے تھے لیکن ہمارے سامنے دکھاوا کرتے تھے۔

ہم کچھ نہیں کرتے بس ایک کام ضرور کریں گے۔ہم آج سے یکطرفہ محبت ختم کرتے ہیں۔ہم تم سے نفرت کرتے ہیں اور یہ نفرت آنے والی نسلوں میں بھی کنورٹ کریں گے۔پہلے ہم تمہیں دیکھ کر ہاتھ ہلاتے تھے مگر اب منہ پھیر لیں گے۔تمہارے لیے ہماری طرف سے یہی سزا کافی ہے۔۔آپ کیلیے کرپشن مسلہ نہیں لیکن اسی کرپشن کیوجہ سے ہمارا ملک غریب ہے۔جہاں کرپشن مسلہ ہے وہ سب ممالک ترقی یافتہ ہیں۔تمہاری یہی سوچ ہمیں ڈبو گئ۔۔آپ سب اندر سے ملے ہوے ہیں۔آپ سب کے کاروباری مفاد ہیں۔اور ہم سمجھتے رہے ہمارے لیے آپ لڑتے ہیں۔

لوگ کہا کہیں گے.... مت سوچ

 لوگ کیا کہیں گے؟

آج کل کے بڑے بڑے مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ'' لوگ کیا کہیں گے؟؟''

 میں کہتا ہوں، چھوڑیئے لوگوں کو ان کا تو کام ہی کہنا آپ جو مرضی کر لیں، لوگوں کو خوش کرنے کے لیئے اپنی گردن بھی کٹا دیں تب بھی بعض لوگ یہی کہیں گے۔'' صفائی سے نہیں کٹی'' سو۔۔۔۔'' کچھ تو لوگ کہیں گے لوگوں کا تو کام ہے کہنا''

 چار دن کی زندگی ہے اس میں بھی سب کو خوش کرنے میں اپنا آپ ہلکان کر ڈالیں اور نتیجہ صفر کا صفر تو کیا ضرورت پڑی ہے۔

خود پر توجہ دیجیئے۔۔۔ اپنا خیال خود رکھنا سیکھیئے۔ ہماری ذات بہت سے معاملات میں ہماری توجہ چاہتی ہے اور ہم اپنی توجہ یونہی ایرے غیرے نتھو خیرے قسم کے لوگوں پر مرکوز کر کے اپنی ذات کو مسائل کے ملبے تلے دبا کر اس سے آنکھیں چرائے دوسروں کی ذات میں خوشیاں بکھیرنے کی لاحاصل کوششوں میں مصروف رہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہماری اپنی شخصیت شکست و ریخت کا شکار ہوکر ایک دن نیست و نابود ہو جاتی ہے۔

 سو لوگوں کو خوش کرنے یا ان کی چمچہ گیری کرنے سے بہتر ہے اپنی ذات پر توجہ دیجئے اسے پالش کیجئے لوگ خود آپ کی طرف بڑھیں گے۔ ہاں باتیں بنانا پھر بھی نہیں چھوڑیں گے۔لیکن کم از کم ہمیں ان سے کوئی شکایت تو نہ ہوگی؟۔۔ ہماری ذات پر تنقید کریں گے تو بھی ہمارا فائدہ۔ہمیں مزید اپنی خامیوں کے بارے میں آگاہی ہوگی۔ ہماری تعریف کریں گے تو بھی ہمارا فائدہ کہ کچھ تو ہے ہم میں۔

لوگوں کو ان کے کہنے کو ہرگز خود پر سوار مت کریں۔۔ بلکہ لوگوں کے دل و دماغ میں رہنا سیکھیئے۔۔۔۔ جو آپ کو سراہ رہا ہے یقیناً آپ اس کے دل میں ہیں۔ جو آپ پر کڑی تنقید کر رہا ہے یقیناً آپ اس کے دل و دماغ میں بس رہے ہیں۔۔۔ایسے لوگوں کی باتوں پر قطعاً دھیان مت دیجیئے۔ سب کے دکھ، سکھ میں شریک ہوں لیکن یاد رکھیئے سب کو خوش کرنے کا ٹھیکہ آپ نے نہیں لیا ہوا۔ اور نہ ہی آپ کے ایسا کچھ کرنے سے کسی نے خوش ہوجانا ہے۔۔۔ پھر فائدہ ناحق اپنا وقت برباد کرنے سے؟۔

دوسروں کو خوش رکھیئے ضرور رکھیئے لیکن اس سے پہلے خود خوش رہیے۔ اپنے لبوں پر مسکان سجایئے۔۔زندہ دلی سے جینا سیکھیئے، ہنسیئے۔ کھلکھلائے بنا اس بات کی پرواہ کیئے کہ

” لوگ کیا کہیں گے“

#ذیشانیات

Friday, June 3, 2022

انوکھا فلاسفر

 چارلس بکوسکی ایک بے شرم شرابی اور عورت باز شخص تھا۔ اس کی بیشتر زندگی ناکام و نامراد گزری مگر عورتوں کے معاملات میں وہ بہت خوش نصیب تھا عورتیں اس کی گالیوں کو اپنی تعریف و توصیف سمجھتی تھیں ، وہ اسٹیج پر اکثر شاعری سناتے سناتے اپنے سننے والوں کو مغلظات بکنا شروع کردیتا تھا ۔ جوئے میں بڑی بڑی رقمیں ہار جاتا تھا۔ مگر یہ بداعمال شخص اپنے اندر بہت سے پارساؤں سے بہتر تھا ، منافق نہیں تھا ، جو محسوس کرتا تھا وہی ظاہر کرتا تھا۔ بہت سوں سے بہتر کردار کا مالک تھا۔


" عشق کرو حتٰی کہ  

"وہ تُمہیں مار ڈالے ، 

ویسے بھی جلد یا بدیر ساری چیزیں ہی جان لیوا ہوتی ہیں ، 

تاہم محبوب کے ہاتھوں مرنا باعثِ اعزاز ہے! ۔


چارلس بکوسکی 💞

آزادی کی قیمت ہم کیا جانیں

 باجے بجاتی ناچتی گاتی ہّلڑ باز قوم نما ہجوم کے لیے ! ""15 اگست 1947 کو جب بھارت پر آزادی کی دیوی کا نزول ہوا تو امرتسر شہر نے اس ...